حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ کردستان سے سنندج کے امام جمعہ جناب ماموستا عبد الرحمن خدائی نے طلاب اہلسنت کے درمیان خطاب کرتے ہوئے کہا: طلبہ دین اسلام کو زندہ رکھنے اور اس کے انتشار کے لئے تیار ہے اور حقیقت میں یہ کہنا چاہئے کہ طلبہ اور علماء، دین اسلام کے نگہبان اور محافظ ہیں۔
سنندج میں امام جمعہ نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ حالیہ برسوں میں دینی اسکالرز اور کارکنوں کے فرائض بہت سنگین ہوچکے ہیں ، کہا: آج ، اسلامی معاشرے خصوصا نوجوان نسل کو ثقافتی اور مذہبی جارحیت ، سائبر اسپیس ، سوشل نیٹ ورکس جیسے متعدد خطرات کا سامنا ہے لہذا ہمیں اپنے دینی دشمنوں سے مقابلہ کرنے کےلئے اتحاد اسلامی جیسے محاذ کے تشکیل کی ضرورت ہے۔
اس اہلسنت عالم دین نے مزید کہا: یہیں سے روحانی اور مذہبی عالم کا کردار واضح ہوتا ہے۔ آپ دینی اسکالرز کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آپ پر اسلامی معاشرے کے لئے ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لہذا خیال رہے کہ ہمارے مذہبی معاشرے میں کہیں ہمارا مذہبی وقار کم رنگ نہ ہو یا خدانخواستہ کہیں ختم ہی نہ ہو جائے۔
ماموستا خدائی نے اپنے بیانات میں کہا: جو شخص خلوص دل کے ساتھ حوزہ اور مدرارس علمیہ میں داخل ہوتا ہ تو گویا اس نے اپنے آپ کو دین اسلام کے تحفظ اور اس کی پابندی کا بھاری فرض ادا کرنے کے لئے تیار کر لیا ہے اور یہ ایسا کام ہے جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ معاشرے میں خراب چیزوں کے سائے تلے دوسری بے ضابطگیاں بھی ہیں ، کہا: ہمیں معاشرے کی سطح پر صرف بدحجابی کو ہی مدنظر نہیں رکھنا بلکہ بہت سارے دوسرے مسائل جیسے طلاق، تشدد، بے عاطفی وغیرہ جیسے مسائل ہیں جو اسی بدحجابی کے اندر چھپے ہیں۔ یہ سب ہمیں دینی طور پر کمزور کرنے کے دشمن کے منصوبے ہیں۔
شہر سنندج کے امام جمعہ نے کہا: میرا سوال یہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے چالیس سالوں کے دوران آیا ثقافتی اور مذہبی اداروں نے اپنے انقلابی فرائض کو بخوبی انجام دیا ہے ؟! ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم نے اس میدان میں بہت زیادہ کام نہیں کیا ہے اور اس سلسلہ میں ہم نے سستی برتی ہے۔ اب ہمیں اس صورتحال کو جلد تبدیل کرنا ہوگا۔
ماموستا خدائی نے اسلامی معاشرہ میں طلاب دینی اور علمائے کرام کی واضح موجودگی کی ضرورت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا۔ طلبہ اور علماء کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے حجرے اور کلاس روم تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ معاشرہ میں اپنی مستقل اور مؤثر موجودگی کو ثابت کریں اور اپنی دینی سرگرمیوں میں کوشاں رہیں۔